ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ مستقبل کی ملازمتیں چار بڑی سائنسی و تکنیکی طاقتوں سے تیزی سے بدل رہی ہیں: مصنوعی ذہانت، ماحولیاتی و کلائمٹ ٹیکنالوجی، خلائی ٹیکنالوجی اور بایوانجینئرنگ۔ یہ شعبے نہ صرف سائنسی ترقی کی علامت ہیں بلکہ دنیا بھر میں کاروبار، صنعت، زراعت، صحت اور انتظامی نظاموں کی ساخت کو نئے سرے سے ترتیب دے رہے ہیں۔ اس ترقی کا سب سے نمایاں اثر ابتدائی درجے کی نوکریوں پر پڑ رہا ہے، جہاں پہلے معمول اور دہرانے والے کام زیادہ تھے، اب تنظیمیں ایسے افراد کی تلاش میں ہیں جو ڈیٹا کو سمجھ سکیں، ٹیکنالوجی کو استعمال کرنا جانتے ہوں، مسائل کا تجزیہ کر سکیں اور نئے حل تلاش کرسکیں۔ اس تبدیلی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نوکریاں ختم ہو جائیں گی، بلکہ یہ کہ نوکریوں کا انداز تبدیل ہوگا۔ بہت سے کام جو پہلے انسان کرتے تھے وہ اب خودکار نظام یا مصنوعی ذہانت کی مدد سے تیزی اور درستگی کے ساتھ کیے جا سکتے ہیں۔ اس لیے وہ افراد جو اپنی مہارتوں کو وقت کے ساتھ ہم آہنگ رکھیں گے اور نئی تکنیکی صلاحیتیں سیکھیں گے، ان کے لیے مواقع کم نہیں، بلکہ زیادہ ہوں گے۔
مصنوعی ذہانت کی تیز رفتار ترقی نے ایسے کاموں میں خودکار نظاموں کو آگے بڑھا دیا ہے جو معلومات کی درجہ بندی، حساب کتاب یا ایک جیسے سوالات کے جواب دینے جیسے ہیں۔ مثال کے طور پر ڈیٹا انٹری، ابتدائی سطح پر اکاؤنٹنگ، عام کسٹمر سپورٹ اور سادہ پروگرامنگ کے کام اب بڑی حد تک خودکار نظام سنبھال رہے ہیں۔ مگر اس صورتحال میں انسان کی ضرورت ختم نہیں ہوتی بلکہ تبدیل ہوتی ہے۔ اب کارکنوں کا بنیادی کردار یہ ہوگا کہ وہ خودکار نظاموں کے نتائج کو جانچیں، ان کی درستگی کو بہتر بنائیں، صارف کے مطابق حل ترتیب دیں اور ایسے فیصلے کریں جو انسانی فہم اور زمینی حقیقتوں سے جڑے ہوں۔ اس لیے وہ افراد کامیاب ہوں گے جو مصنوعی ذہانت کو سمجھ کر اس کے ساتھ کام کرنا سیکھ لیں گے نہ کہ اس کے مقابلے میں کھڑے ہوں۔
اسی طرح کلائمٹ ٹیکنالوجی دنیا بھر کی صنعتوں میں پائیداری، کم فضلہ، صاف توانائی اور ماحول دوست پیداوار کے تقاضے بڑھا رہی ہے۔ اب کمپنیوں کی ترجیحات صرف منافع نہیں بلکہ ماحول کی ذمہ داری بھی ہیں۔ اس سے وہ نوجوان جنہیں ماحولیاتی سائنس، توانائی کے بہتر استعمال، کاربن اخراج کی پیمائش، ری سائیکلنگ اور پائیدار مصنوعات ڈیزائن کرنے کا بنیادی علم ہو، مستقبل میں زیادہ اہمیت حاصل کریں گے۔ یعنی زراعت، تعمیرات، نقل و حمل، مینوفیکچرنگ، حتیٰ کہ بینکنگ اور مارکیٹنگ جیسے شعبے بھی اب ماحولیاتی اثرات کی بنیاد پر پالیسی بناتے ہیں۔
خلائی ٹیکنالوجی کی ترقی نے سیاروں کے سفر سے زیادہ زمین کی نگرانی اور ڈجیٹل نقشہ سازی میں انقلاب برپا کیا ہے۔ اب چھوٹے سیٹلائٹ اور کم قیمت خلائی مشنوں کی وجہ سے زراعت، شہری منصوبہ بندی، موسمیاتی نگرانی، قدرتی آفات کا اندازہ اور لاجسٹکس میں سیٹلائٹ ڈیٹا استعمال ہو رہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ مستقبل کے کارکنوں کو نقشہ سازی، جغرافیائی ڈیٹا کی سمجھ اور زمینی منصوبہ بندی کے لیے جدید سافٹ ویئر کے استعمال سے واقف ہونا چاہیے۔ یہ ہنر مشکل نہیں، مگر مستقبل میں بہت قیمتی ہوں گے۔
بایوانجینئرنگ کی ترقی نے دوا سازی، زراعت، ماحولیات اور انسانی صحت کے شعبوں میں بڑے امکانات پیدا کیے ہیں۔ وہ تجرباتی کام جو پہلے ہاتھ سے بار بار کیا جاتا تھا، اب خودکار لیبارٹری نظام کرتے ہیں۔ چنانچہ نئی لیبارٹری نوکریاں مشینوں کو چلانے، ڈیٹا کا تجزیہ کرنے اور تحقیق کے نتائج کی درستگی جاچنے پر مبنی ہوں گی۔ اسی طرح بایوانفارمیٹکس کا شعبہ تیزی سے بڑھ رہا ہے جس میں حیاتیاتی ڈیٹا کو کمپیوٹر کی مدد سے سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے مستقبل کے سائنسدانوں اور صحت کے ماہرین کے لیے ڈیٹا اور ٹیکنالوجی کے ساتھ کام کرنا بھی ضروری ہوگا۔
ان تمام تبدیلیوں کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ کام جو صرف دہرائے جاتے ہیں اور جن میں زیادہ فیصلے یا تخلیقی سوچ شامل نہیں، وہ کم ہوتے جائیں گے۔ مگر ایسے کام بڑھیں گے جن میں تجزیہ، تکنیکی سمجھ، ٹیم ورک، اخلاقی فیصلہ سازی اور ڈیٹا کی تشریح شامل ہو۔ اس کا مطلب ہے کہ مستقبل کا کامیاب پروفیشنل وہ ہوگا جس کے پاس دو چیزیں بیک وقت ہوں:
-
کسی ایک شعبے میں بنیادی مہارت
-
ساتھ میں ڈیٹا اور ٹیکنالوجی کی عملی سمجھ
کیریئر کی تیاری کے لیے ضروری ہے کہ نوجوان اپنے شعبے میں بنیادی علم کے ساتھ ڈیٹا انیلیسس، کمپیوٹر ٹولز، سافٹ ویئر کے استعمال، اور مسئلہ حل کرنے کی صلاحیت پیدا کریں۔ عملی منصوبے، آن لائن کورسز، انٹرنشپس اور چھوٹے تجرباتی پروجیکٹ ان مہارتوں کو مضبوط بنانے کے بہترین طریقے ہیں۔ دنیا جس سمت بڑھ رہی ہے وہاں مستقل سیکھنا اور تبدیلی کو قبول کرنا سب سے بڑی طاقت ہے۔ جو لوگ سیکھنے کو اپنا معمول بنا لیں گے، وہ نہ صرف مستقبل کی نوکریوں میں جگہ بنائیں گے بلکہ نئی راہیں بھی متعین کریں گے۔


0 Comments