مصنوعی مٹھاس اور دماغی بڑھاپا، اب تک سائنس کیا بتاتی ہے

مصنوعی مٹھاس اور دماغی بڑھاپا، اب تک سائنس کیا بتاتی ہے



 

مصنوعی مٹھاس کو ایک سادہ مسئلے کے حل کے طور پر متعارف کرایا گیا تھا۔ چینی ذائقہ دیتی ہے، مگر زیادہ مقدار صحت کو نقصان پہنچاتی ہے۔ وزن بڑھنا، ذیابیطس، دل کی بیماریاں اور دانتوں کا خراب ہونا، ان سب نے سائنسدانوں اور فوڈ انڈسٹری کو ایسے متبادل تلاش کرنے پر مجبور کیا جو مٹھاس تو دیں مگر کیلوریز نہ بڑھائیں۔ وقت کے ساتھ، مصنوعی مٹھاس روزمرہ خوراک کا عام حصہ بن گئی۔ آج اندازاً ترقی یافتہ ممالک میں 30 سے 40 فیصد بالغ افراد باقاعدگی سے مصنوعی مٹھاس استعمال کرتے ہیں، خاص طور پر ڈائٹ سوڈا، شوگر فری اسنیکس، چیونگم اور فلیورڈ ڈرنکس کے ذریعے۔

کئی برس تک بحث کا مرکز یہ رہا کہ آیا مصنوعی مٹھاس کینسر یا میٹابولک بیماریوں کا سبب بنتی ہے یا نہیں۔ بڑے حفاظتی جائزوں نے ان خدشات کو کسی حد تک کم کیا، کم از کم مقررہ مقدار کے اندر۔ مگر اب ایک نیا سوال سامنے آیا ہے، جو زیادہ ذاتی اور زیادہ تشویشناک محسوس ہوتا ہے۔ کیا مصنوعی مٹھاس آہستہ آہستہ دماغ کے بڑھاپے پر اثر ڈال رہی ہے؟

دماغی بڑھاپا صرف الزائمر یا ڈیمنشیا تک محدود نہیں۔ اس میں سوچ کی رفتار کا کم ہونا، یادداشت کی کمزوری، توجہ میں کمی، اور زبان یا فیصلے کرنے کی صلاحیت میں تبدیلیاں شامل ہیں۔ یہ عمل اکثر کسی واضح بیماری سے بہت پہلے شروع ہو جاتا ہے۔ اس میں جینیات کا کردار ہوتا ہے، مگر طرزِ زندگی بھی بہت اہم ہے۔ خوراک ان عوامل میں سب سے طاقتور ہے، لیکن اسے سائنسی طور پر جانچنا بھی سب سے مشکل ہے۔

حالیہ برسوں میں کچھ طویل المدتی تحقیقی مطالعات نے مصنوعی مٹھاس اور ذہنی کمزوری کے درمیان تعلق کا جائزہ لینا شروع کیا۔ ایک نمایاں تحقیق میں بارہ ہزار سے زیادہ درمیانی عمر کے افراد کو تقریباً آٹھ سال تک فالو کیا گیا۔ شرکاء نے مختلف مصنوعی مٹھاس کے استعمال کی تفصیل دی، جن میں اسپارٹیم، سیکرین، ایسیسلفیم کے، ایرتھریٹول، زائیلیٹول اور سوربیٹول شامل تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کی یادداشت، توجہ، سوچنے کی رفتار اور زبان سے متعلق صلاحیتوں کے ٹیسٹ بھی بار بار لیے گئے۔

نتائج چونکا دینے والے تھے، مگر اچانک نقصان کی صورت میں نہیں۔ جو لوگ مصنوعی مٹھاس زیادہ مقدار میں استعمال کرتے تھے، ان میں ذہنی صلاحیتوں میں کمی کی رفتار نسبتاً تیز تھی۔ عمر، تعلیم، تمباکو نوشی، جسمانی سرگرمی اور مجموعی خوراک جیسے عوامل کو مدنظر رکھنے کے بعد بھی یہ تعلق برقرار رہا۔ زیادہ استعمال کرنے والوں میں ذہنی کمزوری کی رفتار تقریباً 60 فیصد زیادہ دیکھی گئی۔ سادہ الفاظ میں، یہ فرق ایسے محسوس ہوا جیسے دماغ ایک سے دو سال زیادہ بوڑھا ہو گیا ہو۔

یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ مصنوعی مٹھاس براہِ راست دماغ کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ مگر یہ ضرور ظاہر ہوتا ہے کہ طویل عرصے تک زیادہ مقدار میں استعمال دماغی صحت پر باریک مگر جمع ہونے والے اثرات ڈال سکتا ہے۔ یہی فرق سائنسی اعتبار سے اہم ہے۔

عمر بھی ایک اہم عنصر نکلی۔ 60 سال سے کم عمر افراد میں یہ تعلق زیادہ واضح تھا۔ بڑی عمر کے افراد میں یہ اثر کم دکھائی دیا، ممکنہ طور پر اس لیے کہ عمر بڑھنے کے ساتھ دیگر طبی عوامل دماغ پر زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں۔ ذیابیطس کے مریضوں میں بھی یہ تعلق زیادہ مضبوط پایا گیا۔ چونکہ ذیابیطس کے مریض مصنوعی مٹھاس زیادہ استعمال کرتے ہیں، اس لیے یہ گروپ خاص طور پر اہم بن جاتا ہے۔

ممکنہ حیاتیاتی وجوہات پر بات کی جائے تو ایک اہم نظریہ آنت اور دماغ کے تعلق سے جڑا ہے۔ مصنوعی مٹھاس جسم سے بغیر اثر کے خارج نہیں ہو جاتی۔ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ یہ آنتوں میں موجود بیکٹیریا کی ساخت کو بدل سکتی ہے۔ آنتوں کا مائیکرو بایوم سوزش، میٹابولزم اور حتیٰ کہ دماغی کیمیکلز پر اثر انداز ہوتا ہے۔ آنتوں کی تبدیلیوں کو موڈ کی خرابیوں اور ذہنی کمزوری سے جوڑا گیا ہے۔

ایک اور نظریہ انسولین کے نظام سے متعلق ہے۔ اگرچہ مصنوعی مٹھاس میں کیلوریز نہیں ہوتیں، پھر بھی یہ انسولین کے ردعمل یا گلوکوز کے استعمال کو متاثر کر سکتی ہیں۔ دماغ مستحکم گلوکوز پر انحصار کرتا ہے۔ طویل المدتی انسولین مسائل کو دماغی کمزوری اور الزائمر سے جوڑا گیا ہے، اگرچہ یہ نظریہ ابھی بحث کے مرحلے میں ہے۔

سوزش بھی ایک ممکنہ راستہ ہے۔ کچھ جانوروں پر ہونے والی تحقیقات میں دیکھا گیا کہ بعض مصنوعی مٹھاس کم درجے کی دائمی سوزش بڑھا سکتی ہیں۔ طویل عرصے تک رہنے والی سوزش دماغی بڑھاپے کا ایک اہم عنصر سمجھی جاتی ہے، کیونکہ یہ خون کی نالیوں اور اعصابی خلیات کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔

رویوں کا پہلو بھی اہم ہے۔ مصنوعی مٹھاس بھوک اور خوراک کے انتخاب کو متاثر کر سکتی ہے۔ کچھ شواہد بتاتے ہیں کہ یہ میٹھے یا انتہائی پراسیسڈ کھانوں کی خواہش بڑھا سکتی ہیں۔ اس طرح اصل مسئلہ صرف مٹھاس نہیں، بلکہ وہ مجموعی خوراک بن جاتی ہے جو اس کے ساتھ جڑی ہوتی ہے۔

اس تحقیق پر تنقید بھی کی جاتی ہے، اور وہ جائز ہے۔ زیادہ تر مطالعات خود بتائی گئی خوراک پر انحصار کرتے ہیں، جو ہمیشہ درست نہیں ہوتی۔ مشاہداتی مطالعات وجہ اور نتیجہ ثابت نہیں کر سکتے۔ ممکن ہے کہ مصنوعی مٹھاس زیادہ استعمال کرنے والے افراد پہلے ہی کچھ ایسی عادات رکھتے ہوں جو دماغی صحت کے لیے نقصان دہ ہوں۔

اس کے باوجود، مختلف مطالعات میں ملتے جلتے نتائج تشویش کو بڑھاتے ہیں۔ کچھ تحقیقی تجزیوں میں ڈائٹ سوڈا کے زیادہ استعمال کو فالج اور ڈیمنشیا کے بڑھتے ہوئے خطرے سے جوڑا گیا ہے۔ اگرچہ مجموعی خطرہ کم رہتا ہے، مگر نسبتاً اضافہ قابلِ توجہ ہے۔

یہاں ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے۔ کیا مصنوعی مٹھاس چینی سے بہتر ہیں؟ جواب مکمل طور پر سادہ نہیں۔ زیادہ چینی واضح طور پر میٹابولک اور دماغی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ اس لحاظ سے مصنوعی مٹھاس کچھ خطرات کم کر سکتی ہیں، خاص طور پر ذیابیطس کے مریضوں میں۔ مگر مٹھاس کو مکمل طور پر ختم کرنے اور اسے بدلنے میں فرق ہے۔ دماغ مٹھاس اور کیلوریز کے تعلق کو سیکھتا ہے، اور مصنوعی مٹھاس اس نظام کو الجھا سکتی ہے۔

قدرتی مٹھاس جیسے شہد یا میپل سیرپ بھی آخرکار چینی ہی ہیں اور زیادہ مقدار میں نقصان دہ ہو سکتی ہیں، اگرچہ ان میں کچھ مفید اجزاء ہوتے ہیں۔ اسٹیویا، جو پودے سے حاصل کی جاتی ہے، نسبتاً بہتر سمجھی جاتی ہے، مگر اس کے طویل المدتی دماغی اثرات پر ابھی محدود ڈیٹا موجود ہے۔

اسپارٹیم پر خاص توجہ دی جاتی ہے کیونکہ یہ سب سے زیادہ استعمال ہونے والی مٹھاس میں سے ایک ہے۔ یہ جسم میں جا کر ایسے اجزاء میں ٹوٹتی ہے جو دماغی کیمیکلز سے متعلق ہیں۔ عام مقدار میں اسے محفوظ سمجھا جاتا ہے، مگر طویل عرصے تک زیادہ استعمال کے اثرات پر سوالات باقی ہیں۔

ریگولیٹری ادارے اب بھی منظور شدہ مصنوعی مٹھاس کو مقررہ حد کے اندر محفوظ مانتے ہیں۔ یہ حدود زہریلے اثرات پر مبنی ہوتی ہیں، نہ کہ دہائیوں پر پھیلے باریک ذہنی اثرات پر۔ اس لیے رہنما اصول بدلنے میں وقت لگتا ہے۔

عام فرد کے لیے عملی بات یہ ہے کہ کبھی کبھار استعمال نقصان دہ نہیں لگتا۔ مگر روزانہ، برسوں تک زیادہ مقدار میں استعمال ایک مختلف معاملہ ہو سکتا ہے، خاص طور پر اگر مجموعی خوراک غیر صحت مند ہو۔

دماغی صحت بہت سے عوامل سے متاثر ہوتی ہے۔ نیند، ورزش، سماجی روابط، تعلیم اور دل کی صحت سب اہم ہیں۔ خوراک ان سب کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ وہ غذائی انداز جو سبزیوں، پھلوں، مکمل اناج اور کم پراسیسڈ خوراک پر مشتمل ہو، دماغ کے لیے بہتر سمجھا جاتا ہے۔

اب تک سائنس یہ بتاتی ہے کہ مصنوعی مٹھاس کا زیادہ اور طویل استعمال بعض لوگوں میں ذہنی کمزوری کی رفتار سے جڑا ہوا ہے، خاص طور پر درمیانی عمر میں۔ یہ براہِ راست وجہ ثابت نہیں کرتا، مگر خبردار ضرور کرتا ہے۔ اصل سوال یہ نہیں کہ مٹھاس مکمل طور پر چھوڑ دی جائے، بلکہ یہ ہے کہ ہم مٹھاس پر کتنا انحصار کرتے ہیں۔

دماغ عادات کو یاد رکھتا ہے۔ جو ذائقے اور انتخاب ہم برسوں تک دہراتے ہیں، وہ آہستہ آہستہ ہماری ذہنی صحت کو شکل دیتے ہیں۔ مصنوعی مٹھاس شاید فوری نقصان نہ پہنچائے، مگر اس کے طویل سائے کو نظر انداز کرنا بھی دانشمندی نہیں۔

Post a Comment

0 Comments